Islamic information

-

جڑواں بچے کس عورت کے پیدا ہوتے ہیں 

ہمارے معاشرے میں جڑواں بچوں کو لے کر لوگوں کے ذہن میں بے شمار سوال پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا کہ ماں اور باپ طاقتور ہوں تو جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں۔ کسی کا کہنا کہ والدین میں سے کوئی ایک بھی زیادہ طاقتور ہو تو ان کے گھروں میں جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ تصور کرتے ہیں۔ کہ جو میاں بیوی کثرت کے ساتھ ہمبستری کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے گھر جڑواں اولاد عطا کرتا ہے۔ ناظرین گرامی اس بارے میں حضرت علی شیر خدا کا قول بھی موجود ہیں کہ

جڑواں بچے کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ عرب میں ایک آدمی بیٹیوں سے سخت نفرت کرتا تھا۔ جب بھی کہیں آس پاس میں کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی تو وہ اُن لوگوں کو خوب کوستہ ۔ اسی طرح جب اُس کی بیوی حمل سے ہوئی تو اللہ پاک نے اُسے جڑواں بیٹیاں عطا فرمائیں۔ جب اس کو خبر ہوئی کہ اس کے اپنے گھر میں دو بیٹیوں نے جنم لیا ہے۔ تو وہ بہت ہی دکھی ہوا اور اپنی بیوی کو منحوس قرار دے دیا۔اس بندے کی مایوسی کی باتیں امیر المومنین حضرت سیدنا علی کے پاس پہنچیں تو حضرت

علی نے حکم دیا کہ اُس بندے کو میرے سامنے پیش کیا جائے۔ چنانچہ کچھ ہی دیر ہے بعد سپاہی اُسے حضرت علی کے سامنے لے آئے تو سید نا علی نے فرمایا: اے اللہ تعالیٰ کے بندے اللہ تعالیٰ ہر کسی کو بیٹی کی نعمت سے نہیں نواز تا۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے گھر میں جڑواں بیٹیاں عطا نہیں کرتا اللہ تعالیٰ جس گھر سے خوش ہوتا ہے۔ اس گھر میں بیٹی پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو جنت میں داخل کرنا چاہتا ہے اور اُس کی آخرت کو سنوارنا چاہتا ہے تو اس کے گھر میں بیٹی پیدا کر دیتا ہے۔ اللہ

تعالیٰ کے آخری نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس بندے نے اپنی بیٹیوں کی اچھی تربیت کی، اُن کی خوب پرورش کی ، پھر جب وہ جوان ہوئیں تو اس نے بیٹیوں کی شادیاں کی۔ ایسے بندے کے لیے اللہ تعالیٰ جنت واجب کر دیتا ہے۔ اس شخص نے حضرت مولا علی کی بارگاہ میں عرض کی۔ یا علی جب عورت حاملہ ہو جاتی ہے تو ہم کو کس طرح معلوم ہو گا کہ اس عورت کو لڑکا پیدا ہو گا یا لڑ کی یا جڑوا بچے پیدا ہوں گے۔ اُس شخص کی بات سن کر حضرت سید نا مولا علی فرمانے لگے کہ اس

بات کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ کہ اُس کو لڑکا پیدا ہو گا، لڑکی پیدا ہو گی یا پھر جڑواں پیدا ہوں گے۔ اللہ کے سوا کسی کے پاس بہتر علم نہیں ہوتا ہے۔ ہم بس آپ کو ایک بات بتا دیتے ہیں کہ جب بھی بیوی اور میاں ہم بستری کرتے ہیں۔ تو مرد کی منی عورت کی منی پر غالب آ جائے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اگر عورت کی منی مرد کی منی پر غالب آ جائے تو عورت کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ اگر میاں اور بیوی کی منی آمنے سامنے آئے تو جڑواں بچے پیدا ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے بے شمار

مخلوقات کو پیدا فرمایا ہے۔ جس میں سے کچھ مخلوقات زمین میں زندگی بسر کر رہی ہیں اور کچھ مخلوقات سمندر میں زندگی گزار رہی ہیں اللہ تعالیٰ ہے ہر کا جوڑا پیدا کیا ہوا ہے۔ یہ کام اللہ تعالیٰ نے اس لیے کیا ہے کہ ہر مخلوق کی نسل قیامت تک باقی رہ سکے۔ ان مخلوقات میں سے اللہ تعالیٰ نے ایک مخلوق ایسی بنائی ہے۔ جس کو انسان کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں بھی مرد اور عورت کو پیدا کیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ “نہ میں کسی کا باپ ہوں اور نہ ہی میری کوئی اولاد ہے۔

میں ماں باپ اور اولاد سے پاک ہوں۔ میرا کوئی نہیں ہے۔ میں صرف تنہا اور اکیلا ہوں۔ ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ میں ہی جانتا ہوں کہ عورت کے گھر میں لڑکا ہے یا پھر لڑکی ہے۔ میں جس کو چاہتا ہوں لڑکا یا لڑکی یا پھر جڑواں اولاد عطا کر تا ہوں۔ جس کو چاہتا ہوں بانجھ بنادیتا ہوں۔ اتنے میں ایک اور شخص کھڑا ہوا۔ اس نے حضرت سیدنا علی سے کہا کہ میرا بچہ ہر وقت روتا ہی رہتا ہے۔ اس کی صحت بھی بہت ہی کمزور ہو گئی ہے۔ حضرت مولا علی نے کہا کہ اپنی بیوی سے کہوں

کہ اس بچے کو اپنے بائیں طرف لیٹا کر ایک بار سورہ فاتحہ پڑھ پھر اُس کو سلایا کرے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کہ بچہ جب اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ تو بچے کو اپنی ماں کے دل کی دھڑکن سے سکون ملتا ہے۔ مگر جب وہ پیدا ہوتا ہے۔ تو وہ اپنی ماں کے جسم سے علیحدہ ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بچہ اپنی آپ کو اکیلا محسوس کرتا ہے اور وہ روتا رہتا ہے۔ جب ماں اپنے بچے کو بائیں طرف سلاتی ہے۔ تو بچہ ماں کے دل کی دھڑکن کو محسوس کر کے سکون حاصل

کرتا ہے۔ جب بچے کو سکون ملتا ہے تو وہ خوشحال رہتا ہے۔ پیارے دوستو ! اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ سائنس کی روشنی میں جڑواں بچے کیسے پیدا ہوتا ہیں۔ پیار ے دوستوں ! جڑواں بچوں کے پیدا ہونے کی پہلی وجہ جو سائنس بتاتی ہے وہ ہے باڑی ماس انڈیکس کا زیادہ ہونا حال ہی میں کی گئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جن خواتین کا بی ایم آئی باڈی ماس انڈیکس ) 30 یا اس سے زائد ہو تو ان کے گھر جڑواں بچے پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ دوسری وجہ فیملی ہسٹری ہے یعنی اگر ماں باپ

میں سے کسی کی فیملی ہسٹری میں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی ہو تو اگلی نسل میں بھی جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات میں ساٹھ فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے، تاہم ممکن ہے کہ اگر ماں کے خاندان میں جڑواں بچوں کی ہسٹری ہو تو امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ باپ کے خاندان کی ہسٹری میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ تیسری وجہ عمر رسیدگی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ اگر ماں کی عمر تیس سال سے زیادہ ہو تو اس کے حمل ٹہرنے کی صورت میں بھی

جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ تیس سال سے زیادہ عمر کی عورت میں ایک سے زیادہ انڈے خارج ہوتے ہیں۔ چوتھی وجہ قد اور وزن ہے۔ عام طور پر لمبے قد اور صحت مند جسامت والی عورت کے جڑواں بچوں کے پیدا کرنے کے امکانات چھوٹے قد اور کمزور جسامت والی عورت کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں، یعنی وہ عورتیں جن کا وزن اور قد کم ہو ان میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے زیادہ امکان ہوتے ہیں، یہ وجہ تھوڑی عجیب ہے

ہیں۔ تو یہ تھیں چند اہم وجوہات جن کی وجہ سے جڑواں بچوں کی پیدائش ہوتی ہے تا ہم کہا جاتا ہے کہ افریقی نژاد امریکیوں میں جڑواں بچوں کی شرح پیدائش زیادہ ہے جبکہ ایشیائی خواتین میں یہ شرح سب سے کم ہے۔ اگر آپ بھی اس کی کو وجوہات جانتے ہیں اور لوگوں کو اس کے حوالے سے معلومات فراہم کرنا چاہتے ہیں تو ابھی کمنٹ سکیشن میں کمنٹ کریں۔ اللہ تعالیٰ سے د ے دعا ہے کہ اللہ تعالی تمام بے اولادوں کو اولاد عطا فرمائے اور جن کے گھر میں اولاد ہے۔ اس

اولاد کو اپنے ماں باپ کا فرمانبردار

دار بنائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

FOLLOW US

0FansLike
0FollowersFollow
0SubscribersSubscribe
spot_img

Related Stories